شکل جب بس گئی آنکھوں میں تو چھپنا کیسا
شکل جب بس گئی آنکھوں میں تو چھپنا کیسا
دل میں گھر کر کے مری جان یہ پردا کیسا
با ادب ہیں ترے سب کشتۂ ناز اے قاتل
سانس لیں گے نہ دم ذبح تڑپنا کیسا
آپ موجود ہیں حاضر ہے یہ سامان نشاط
عذر سب طے ہیں بس اب وعدۂ فردا کیسا
تیری آنکھوں کی جو تعریف سنی ہے مجھ سے
گھورتی ہے مجھے یہ نرگس شہلا کیسا
ہاتھ بڑھتے ہیں گریباں کی طرف پاؤں نکال
المدد جوش جنوں سبز ہے صحرا کیسا
اے مسیحا یوں ہی کرتے ہیں مریضوں کا علاج
کچھ نہ پوچھا کہ ہے بیمار ہمارا کیسا
گرم بازاریٔ خورشید قیامت ہوئی سرد
حشر میں داغ محبت مرا چمکا کیسا
کیا کہا تم نے کہ ہم جاتے ہیں دل اپنا سنبھال
یہ تڑپ کر نکل آئے گا سنبھلنا کیسا
منہ دکھائے نہ خدا ہجر کی شب کا اکبرؔ
خوف اس کا ہے ہمیں حشر کا دھڑکا کیسا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.