شناسا رموز فطرت غم ہوتی جاتی ہے
شناسا رموز فطرت غم ہوتی جاتی ہے
نشاط و کیف سے بھی آنکھ پر نم ہوتی جاتی ہے
میں جتنا چھیڑتا جاتا ہوں اپنے بربط دل کو
مری آواز اب اتنی ہی مدھم ہوتی جاتی ہے
مچلتی ہے نسیم صبح سے آغوش میں پیہم
گلوں سے کس قدر بے باک شبنم ہوتی جاتی ہے
یہ کیسے جام ہیں ساقی کہ جتنی پیتا جاتا ہوں
مری تشنہ لبی اتنی ہی برہم ہوتی جاتی ہے
الٰہی کون آیا ہے بہاریں لے کے زنداں میں
نظر میری سراپا خیر مقدم ہوتی جاتی ہے
ستم کے ساتھ کچھ ان کا کرم ہے مجھ پر اے مطربؔ
محبت اب نشاط و غم کا سنگم ہوتی جاتی ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.