شق عافیت کنار کنارے کو کر گئی
شق عافیت کنار کنارے کو کر گئی
دریا کی موج سر کو پٹک کر گزر گئی
تہمت کا سیل صبح کو اٹھنے لگا کہ شب
دستک تھی ایک در پہ صدا در بدر گئی
غارت گر سکوں تھیں نوا ہائے خون بلب
جنگل کی شام شہر میں آئی تو ڈر گئی
روتا پھرے گا رات کے رستوں پہ ماہتاب
آغوش ارض خاک تو سورج سے بھر گئی
آرام جاں تھا خواب سکوں آنکھ جب کھلی
سیل فنا اتر گیا مٹی بکھر گئی
ناکردہ کاریوں کی پشیمانیاں نہ پوچھ
عمر عزیز ڈھونڈتے پھریے کدھر گئی
تیرے حضور کون سا نذرانہ تھا قبول
دل سا گہر بھی لے کے مری چشم تر گئی
دیوار و در پہ جن کے لہو بولتا رہا
موج فنا وہ سارے مکاں ڈھیر کر گئی
خوشبوئے مرگ کا نہ ٹھکانہ ملا کوئی
میں بھی غبار راہ رہا وہ جدھر گئی
اب گوش بر صدا ہوئے ہم دوستو تو کیا
آواز دور کی تھی سماعت سفر گئی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.