ششدر و حیران ہے جو بھی خریداروں میں ہے
ششدر و حیران ہے جو بھی خریداروں میں ہے
اک سکوت بے کراں ہر سمت بازاروں میں ہے
نوبت قحط مسیحائی یہاں تک آ گئی
کچھ دنوں سے آرزوئے مرگ بیماروں میں ہے
وہ بھی کیا دن تھے کہ جب ہر وصف اک اعزاز تھا
آج تو عظمت قباؤں اور دستاروں میں ہے
اڑ رہے ہیں رنگ پھولوں کے فقط اس بات پر
التفات فصل گل کا ذکر کیوں خاروں میں ہے
اے مرے ناقد مرے اشعار کم پایہ سہی
کم سے کم ابلاغ تو میرے سخن پاروں میں ہے
بجھ نہیں سکتی کسی صورت ہوس کی تشنگی
بحر بے پایاں بھی بارش کے طلب گاروں میں ہے
خوبصورت شکل میں ہم سب درندے ہیں اسدؔ
آدمی کہتے ہیں جس کو وہ ابھی غاروں میں ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.