شوق دل حسرت دیدار سے آگے نہ بڑھا
شوق دل حسرت دیدار سے آگے نہ بڑھا
میں کبھی جلوہ گہہ یار سے آگے نہ بڑھا
محرم راز حقیقت اسے سمجھیں کیونکر
عشق میں جو رسن و دار سے آگے نہ بڑھا
ننگ ہے عشق میں راحت طلبی اے غافل
توسن عمر غم یار سے آگے نہ بڑھا
خلد کو ہم بھی سمجھتے ہیں مگر اے واعظ
خلد کو کوچۂ دل دار سے آگے نہ بڑھا
میں نے کیا کیا نہ کیا عہد وفا پر اصرار
وہ فقط وعدۂ ہر بار سے آگے نہ بڑھا
بندشیں کعبہ کی قبلہ کا تعین بے کار
میرا سجدہ قدم یار سے آگے نہ بڑھا
حشر میں اور بھی تھے مجرم الفت لیکن
کوئی بھی تیرے گنہ گار سے آگے نہ بڑھا
زندگی اپنی تھی اک وقفۂ تسکین نفس
جو کبھی وقت کی رفتار سے آگے نہ بڑھا
کام نشتر کا ہے پیوست رگ جاں ہونا
وہ بھی تو ابروئے خم دار سے آگے نہ بڑھا
کس قدر جوش پہ تھی ساحل و طوفاں کی کشش
میرا بیڑا کبھی منجدھار سے آگے نہ بڑھا
رہ گئے دو ہی قدم جل کے ہزاروں فتنے
کوئی فتنہ تری رفتار سے آگے نہ بڑھا
ایک دو جام میں سب ہو گئے بے خود ساقی
کوئی بھی افقرؔ مے خوار سے آگے نہ بڑھا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.