شعر گوئی کے اس آزار میں شل ہونے تک
شعر گوئی کے اس آزار میں شل ہونے تک
مستقل سوچتا رہتا ہوں غزل ہونے تک
تیری قربت سے کئی راز کھلے ہیں مجھ پر
دل معمہ تھا مجھے عشق میں حل ہونے تک
بستر مرگ پہ ہوں اور یہ پوچھوں سب سے
نیند آ جائے گی کیا صبح اجل ہونے تک
دھندھلے دھندھلے سے نظر آتے تھے منظر مجھ کو
صنف گویائی کو آنکھوں کا بدل ہونے تک
خاک بس خاک ہی ہوتی ہے رگ جاں کے بغیر
حکم بس حکم ہی رہتا ہے عمل ہونے تک
کتنے ہاتھوں کو قلم کر دیا جاتا ہے یہاں
تربت عشق کو اک تاج محل ہونے تک
کل مجھے وصل کے امکان بہت ہیں ہرشتؔ
عمر لگتی ہے مگر آج سے کل ہونے تک
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.