شعار درد کو غم کو اصول کر بھی لیا
شعار درد کو غم کو اصول کر بھی لیا
کہا بھی عشق کو کار فضول کر بھی لیا
تجھے ابھی ہے تامل جسے سنانے میں
ترا وہ فیصلہ ہم نے قبول کر بھی لیا
تمام شہر مرے ہونٹ چومنے آیا
کبھی جو نام ترا میں نے بھول کر بھی لیا
زمانہ اس کو مرا معجزہ شمار کرے
اٹھے نہ پاؤں بھی رستے کو دھول کر بھی لیا
گلی گلی میں مہک میرے شعر کی پہنچی
عطا جو زخم ہوئے ان کو پھول کر بھی لیا
وہ آنکھ بھیجتی تھی سینکڑوں پیام مجھے
اک آدھ بار تو میں نے وصول کر بھی لیا
ابھی تو ٹھیک سے آئی نہیں تھی سانس مجھے
کہ اگلے شعر نے دل پر نزول کر بھی لیا
چرا کے لے گئی خوشبو کلی کے کھلتے ہی
ہوا نے پھول سے بھتہ وصول کر بھی لیا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.