شکستہ پائی سے بچ کر مری نکل بھی گیا
شکستہ پائی سے بچ کر مری نکل بھی گیا
جو راہ بر تھا مرا راستہ بدل بھی گیا
کروں گا کیا جو ہوئی پھر بھی آتشیں بارش
جو سائباں تھا مرے سر پہ وہ تو جل بھی گیا
ہوا شدید ہے اتنی یہ جھونپڑے ہی نہیں
امیر شہر ترا خوش نما محل بھی گیا
کمان کھینچنے والا ہدف شناس نہ تھا
شکار زد میں نہیں تھا کہ تیر چل بھی گیا
میں سوچتا ہی رہا راستے ہیں پیچیدہ
جو میرے ساتھ چلا تھا کہیں نکل بھی گیا
جو تیرنا ہی نہیں جانتا وہ ڈوبے گا
ذرا سی دیر کو کیا ہے اگر سنبھل بھی گیا
بڑا ہی بپھرا ہوا دست شاہ ہے عاصمؔ
بچاؤ روح وہ جسموں کو تو کچل بھی گیا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.