شکوہ ذات سے دشمن کا لشکر کانپ جاتا ہے
شکوہ ذات سے دشمن کا لشکر کانپ جاتا ہے
اگر کردار پختہ ہو ستم گر کانپ جاتا ہے
تصور میں ابھرتا ہے کبھی جب قبر کا منظر
اچٹ جاتی ہیں نیندیں اور بستر کانپ جاتا ہے
ملے ہیں زخم کچھ ایسے مجھے اپنے رفیقوں سے
کئی برسوں کے کچھ رشتوں کا محور کانپ جاتا ہے
کسی بھی جنگ میں کوئی شہادت کی خبر سن کر
سسک اٹھتے ہیں کنگن اور زیور کانپ جاتا ہے
وہ حیدر مرتضیٰ بھی ہیں وہی شیر خدا بھی ہیں
وہی اک نام سن کے اب بھی خیبر کانپ جاتا ہے
چلے آتے ہیں کچھ یوں بے سلیقہ لوگ میخانے
صراحی رونے لگتی ہے تو ساغر کانپ جاتا ہے
وہی بے خوف رہتا ہے سدا شایانؔ دنیا میں
خدا کے خوف سے دل جس کا اکثر کانپ جاتا ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.