شکوہ کس کس سے کریں سب ہی ستم گر نکلے
شکوہ کس کس سے کریں سب ہی ستم گر نکلے
نئے دشمن تو پرانے سے بھی بڑھ کر نکلے
دل کا عالم کہ کوئی راس نہ آیا اس کو
جانے کتنے ہی حسیں پیار کے منظر نکلے
سامنے سے تو بہت پیار جتایا سب نے
مڑ کے دیکھا تو کئی پیٹھ پہ خنجر نکلے
آسماں کو میں اگر اپنی ہتھیلی پہ رکھوں
تب کہیں جا کے مرے قد کے برابر نکلے
خاک ملتے ہوئے چلتی ہے جہاں کی عظمت
عشق کے کوچہ سے جب کوئی قلندر نکلے
کچھ بھی حاصل نہیں ہوتا ہے کنارے پے کبھی
ڈوب جائیں جو سمندر میں تو گوہر نکلے
جب سے ویران ہوئی بستی مرے سپنوں کی
میری آنکھوں سے کئی سرخ سمندر نکلے
اسی امید پہ جیتے ہیں جہاں میں ہم لوگ
کل کا دن آج کی اس شام سے بہتر نکلے
صاحبہؔ سینچتے ہیں خون جگر سے جس کو
ہے یہ ممکن کے وہی پھول بھی پتھر نکلے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.