شکوہ کی بات ہے نہ شکایت کی بات ہے
دلچسپ معلومات
(18 نومبر 1966ء ) (تعمیر اردو)
شکوہ کی بات ہے نہ شکایت کی بات ہے
آپس کی گفتگو ہے محبت کی بات ہے
ایثار چاہتی ہے محبت بہ نام ترک
اب امتحان ظرف ہے ہمت کی بات ہے
بت خانے میں بھی نور خدا دیکھتا ہوں میں
جی ہاں یہ میرے حسن عقیدت کی بات ہے
کیوں دوسروں کی زیست سے لیتا نہیں سبق
جو بات آدمی کی ہے حیرت کی بات ہے
جو تجھ کو نا پسند ہے اوروں کو ہے پسند
یہ اپنے اپنے ذوق و طبیعت کی بات ہے
سنئے تو شیخ جی کی ذرا لن ترانیاں
حوروں کا ذکر خیر ہے جنت کی بات ہے
شیخ حرم کا ذکر نہیں ہے مرے ندیم
پیر مغاں کے کشف و کرامت کی بات ہے
سیرت ہی جب نہیں ہے تو صورت کا ذکر کیا
صورت کا کیا سوال ہے سیرت کی بات ہے
تو اور بد گمان ہو کہنے سے غیر کے
شکوہ کا ہے مقام شکایت کی بات ہے
مجھ سے قریب ہو کے بہت دور ہو گئے
یہ بھی مرا نصیب ہے قسمت کی بات ہے
یہ شاعری یہ آپ کا ذوق مطالعہ
فرصت کا مشغلہ ہے فراغت کی بات ہے
میں بے ادب نہیں ہوں رہیں آپ مطمئن
خلوت ہی میں کہوں گا جو خلوت کی بات ہے
اغیار کو بھی اتنا تو آخر ہے اعتراف
طالبؔ کی بات بات صداقت کی بات ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.