شعلہ زاروں سے کبھی آب رواں سے گزرے
شعلہ زاروں سے کبھی آب رواں سے گزرے
عبدالقیوم زکی اورنگ آبادی
MORE BYعبدالقیوم زکی اورنگ آبادی
شعلہ زاروں سے کبھی آب رواں سے گزرے
ہم تری راہ میں ہر سود و زیاں سے گزرے
فصل گل سے تری اے دوست ہیں محروم ہنوز
ہم ابھی تک ہیں اسی دور خزاں سے گزرے
ان کے قدموں کے نشاں دیکھ لے تو بھی آ کر
تیرے دیوانے ابھی بزم جہاں سے گزرے
حال کچھ کہنے کو پہنچے تھے ہم ان کے در پر
زخم سینے میں لئے ان کے یہاں سے گزرے
گھر جلا مال لٹا خون بہا جان گئی
ہم ترے دور میں کب امن و اماں سے گزرے
ہائے وہ عہد گزشتہ کے سنہرے ایام
یوں گئے جیسے کوئی تیر کماں سے گزرے
موت پر میری عزیزوں کو ذکیؔ کیوں غم ہے
کون ایسا ہے جو اک دن نہ یہاں سے گزرے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.