شعلے بھڑک رہے تھے غیروں کے تن بدن میں
شعلے بھڑک رہے تھے غیروں کے تن بدن میں
میں جام پی رہا تھا ہم راہ بت چمن میں
فتنے چھپے ہوئے ہیں گیسوئے پرشکن میں
طغیانیاں بپا ہیں آب چہ ذقن میں
صد زینت وطن ہیں ننگ وطن وطن میں
قسمت عروج پر ہے ہر خار کی چمن میں
جسم نحیف کیا ہے ملبوس پیرہن میں
لاشہ ہے حسرتوں کا لپٹا ہوا کفن میں
تکمیل حریت کی ہوگی نہ پھر وطن میں
یہ ہی رہیں گے فتنے جو شیخ و برہمن میں
صد آفریں ہے تجھ کو صد مرحبا زلیخا
چھوڑا نہ تار کوئی یوسف کے پیرہن میں
ظلمت کدہ میں دل کے یوں داغ دل ہیں روشن
قندیل جل رہی ہو جیسے کہ انجمن میں
پانی سے آنسوؤں کے سیراب کر رہا ہوں
خشکی سی آ چلی تھی کچھ زیست کے چمن میں
رہنے دے چارہ گر تو چارہ گری کو اپنی
اک کیف مل رہا ہے ہر زخم کی جلن میں
سب مست پی رہے ہیں ساقی شراب عشرت
اک روزہ دار میں بھی بیٹھا ہوں انجمن میں
آساں نہیں ہے جوہرؔ کچھ فن شعر گوئی
ہوتا ہے خون پانی میدان علم و فن میں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.