شور اندر جو ہے برپا وہ صدا ہو نہ سکا
شور اندر جو ہے برپا وہ صدا ہو نہ سکا
لفظ زنجیر معانی سے رہا ہو نہ سکا
بات چوکھٹ سے جو نکلی تو جبیں تک پہنچی
پھر جو سجدہ مجھے کرنا تھا ادا ہو نہ سکا
اتنی سی بات میں سمٹی تھی کہانی ساری
اس کی میں ہو نہ سکی اور وہ مرا ہو نہ سکا
ہر صنم خانے کی قسمت نہیں کعبے جیسی
دل میں جو بت تھا سجایا وہ خدا ہو نہ سکا
عالم کن میں رہا شور مرے ہونے کا
پھر کوئی حادثہ مجھ سے بھی نیا ہو نہ سکا
تہمت عہد تمنا سے بھی نیا ہو نہ سکا
آج تک جس سے کوئی عہد وفا ہو نہ سکا
- کتاب : ردائے ہجر (Pg. 92)
- Author : تسنیم عابدی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.