شور ہے اس سبزۂ رخسار کا
شور ہے اس سبزۂ رخسار کا
آج طوطی بولتا ہے یار کا
کس ادا سے ہاتھ رکھا قبضے پر
پڑ گیا پتلی میں دم تلوار کا
اشک بے تاثیر سے ہوں آب آب
عقدہ ہوں میں آنسوؤں کے تار کا
بجھ گیا میرا چراغ زندگی
دیکھ کر وہ قمقمہ رخسار کا
کس مرض کی ہے دوا عناب لب
خط رخ نسخہ ہے کس بیمار کا
اب کی ایسی ہار ہے فصل بہار
گل ہے بتخالہ زبان خار کا
ابروئے غلماں ہے وہ محراب در
زلف حورا سایہ ہے دیوار کا
لینے والے لے گئے ہوش و حواس
بک گیا سودا مرے بازار کا
جب میں نکلا خلق نے گھیرا مجھے
میرا سودا قرض ہے بازار کا
جوۓ جنت ہے چہرے صیاد کی
میری گردن پر ہے حق گلزار کا
آب کاری کی ہو خدمت بحرؔ کو
نا خدا ہے کشتیٔ میخوار کا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.