شعور و فکر کے ایسے عتاب ٹوٹتے ہیں
شعور و فکر کے ایسے عتاب ٹوٹتے ہیں
کھلے بغیر ہی دل کے گلاب ٹوٹتے ہیں
تہی ہو جیب تو بھرتے ہیں سارے منصوبے
حساب رکھتے ہوئے بے حساب ٹوٹتے ہیں
لہو لہو نظر آتی ہے دل کی ویرانی
سجے سجائے جب آنکھوں سے خواب ٹوٹتے ہیں
سکوت لب پہ ہے وہ نغمگی کہ جس کے لیے
سخن کے ردم نوا کے رباب ٹوٹتے ہیں
ترے وجود سے ہوتی ہے جب شناسائی
تمام عمر کے سب انتساب ٹوٹتے ہیں
نفس نفس یہ بکھرتی حیات کے منظر
ہوا کے لمس سے جیسے حباب ٹوٹتے ہیں
لبوں سے لفظ نکلتے ہیں آگ کی صورت
جب آگہی کے مری آفتاب ٹوٹتے ہیں
سر شعور ملے ہیں ملامتوں کے ہجوم
جب اعتماد سر انتخاب ٹوٹتے ہیں
حقارتوں کی زمیں دفن بھی نہیں کرتی
ظفرؔ جب اہل کرم کے عذاب ٹوٹتے ہیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.