شعاع سمت سفر کو نظر میں رکھنا ہے
شعاع سمت سفر کو نظر میں رکھنا ہے
تلاطم اور بھنور کو نظر میں رکھنا ہے
ہیں راہ میں خس و خاشاک کے پہاڑ تو کیا
طلسم برق کو اپنے ہنر میں رکھنا ہے
شعار چوب قلم شیوۂ عصائے کلیم
شعاع طور کو تار نظر میں رکھنا ہے
نئے تبوک نے ان گن محاذ کھولے ہیں
ابھی گناہ قدم اپنے گھر میں رکھنا ہے
شبوں کے پاس رہے غار ثور کا تریاک
حرا کا نور نمود سحر میں رکھنا ہے
پھر اس ادا سے کھلیں ذہن و دل کے دروازے
اسی نسیم اخوت کو سر میں رکھنا ہے
ڈبو رہی ہے تہی سیپیوں کی نادانی
صدی کے جال کو پل پل نظر میں رکھنا ہے
کبھی ہے دھوپ کبھی فکر چاندنی ہے متینؔ
تجلی زار غزل کو سفر میں رکھنا ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.