شروع دن سے کسی ستارے کی انگلیوں میں قلم نہیں ہے
شروع دن سے کسی ستارے کی انگلیوں میں قلم نہیں ہے
سیاہ شب کے قدیم کاغذ پہ کوئی سورج رقم نہیں ہے
میں دشت وحشت میں رقص کرتا تو مجھ پہ شاید یہ راز کھلتا
خرد ہے محتاج آب و دانہ جنوں اسیر شکم نہیں ہے
وہ اک سمندر ہے بے مثالی میں چند قطروں کا اک سوالی
وہ کم سے کم بھی عطا جو کر دے بہت ہے مجھ کو وہ کم نہیں ہے
تمہاری آنکھوں کا کیا کروں میں تمہارے ذہنوں کو کیا کہوں میں
تباہ راتوں کا دکھ ہے تم کو بجھے چراغوں کا غم نہیں ہے
میں روشنی کے چمکتے شانوں پہ پاؤں رکھ کر گزر رہا ہوں
فلک ہے میرے سفر کی منزل زمین زیر قدم نہیں ہے
ہمارے رونے سے اس کا دل جو نہیں پسیجا تو کیا شکایت
کہ جس سے پونچھے تھے ہم نے آنسو وہ آستیں بھی تو نم نہیں ہے
میں اس سے پہلے بھی کہساروں میں اپنا رستا بنا چکا ہوں
نئے پہاڑوں سے کہہ دو جا کر یہ میرا پہلا جنم نہیں ہے
ہماری کشتی کے ایک چپو پہ یا محمد لکھا ہوا ہے
ہماری کشتی سے پار پائے کسی سمندر میں دم نہیں ہے
نہ کوئی گریہ نہ کچھ تغافل جو ٹوٹنا ہے تو ٹوٹ جائے
ہماری سانسوں کی ڈور ہے یہ تمہارے سر کی قسم نہیں ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.