شعور ذات کا سودا کہیں سروں میں نہ تھا
شعور ذات کا سودا کہیں سروں میں نہ تھا
کہ اب شمار کسی کا پیمبروں میں نہ تھا
کسی کے لب پہ شکایت نہ تھی اندھیرے کی
کوئی چراغ بھی جلتا ہوا گھروں میں نہ تھا
جو پتھروں پہ بھی سو جاتا تھا سکون کی نیند
اب اس کو چین کہیں نرم بستروں میں نہ تھا
پگھلنے کی وہ روایت تو موم میں بھی نہ تھی
وہ سخت پن بھی کہیں آج پتھروں میں نہ تھا
ابھی ابھی ہی میں جس دن سے مل کے آیا ہوں
وہ دن تو سال کے سارے کلینڈروں میں نہ تھا
نہ کوئی نقش ہی دنیا میں مل سکا تیرا
ترا پتہ کہیں لاشوں کے پنجروں میں نہ تھا
بہت دنوں سے ہیں جھیلیں بھی پر سکون سلیمؔ
وہ اضطراب بھی اب تو سمندروں میں نہ تھا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.