سلسلہ تو کر قاصد اس تلک رسائی کا
سلسلہ تو کر قاصد اس تلک رسائی کا
دکھ سہا نہیں جاتا یار کی جدائی کا
جب ذرا مہک آئی شاخ میں لچک آئی
باغباں کو دھیان آیا باغ کی صفائی کا
فربہ تھا توانا تھا تیرا جانا مانا تھا
جس پہ تو ہوا شیدا لونڈا ہے قصائی کا
سر پہ پیر رکھتا ہے مجھ سے بیر رکھتا ہے
میں نے کب کیا دعویٰ تجھ سے آشنائی کا
دوستوں میں ٹھن جاتی تھی یہ اس کی نادانی
دشمنوں کے ہاتھ آتا موقع جگ ہنسائی کا
ہر کوئی پریشاں ہے آسماں سے نالاں ہے
ہر کسی کو شکوہ ہے اس کی کج ادائی کا
یہ عجیب شیوہ ہے دوستوں کا شکوہ ہے
ہر کسی کو دعویٰ ہے اپنی پارسائی کا
اے تمیز بس بھی کر اس قدر نہ مر اس پر
کیوں ہے شوقؔ چرایا تجھ کو جبہ سائی کا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.