ستم کی آرزو اے بد گماں باقی نہ رہ جائے
ستم کی آرزو اے بد گماں باقی نہ رہ جائے
کوئی اہل وفا کا امتحاں باقی نہ رہ جائے
بہ طرز نو سنایا بارہا افسانۂ ہستی
کہ غم کا کوئی انداز بیاں باقی نہ رہ جائے
جہاں تک ہو سکے تجھ سے ہر اک لے میں پکار ان کو
دل محزوں کوئی طرز فغاں باقی نہ رہ جائے
ہر اک منصور کا دار و رسن سے سامنا ہوگا
غرض یہ ہے کہ کوئی راز داں باقی نہ رہ جائے
نہ ہو انجام میرا جو ہوا فرہاد و مجنوں کا
مٹاؤ اس طرح نام و نشاں باقی نہ رہ جائے
مشیت بھی مجھے تسلیم ہے تقدیر بھی لیکن
کوئی تدبیر اہل کارواں باقی نہ رہ جائے
کبھی غیروں نے پرکھا تھا اب اپنے آزماتے ہیں
مری ہمت کا کوئی امتحاں باقی نہ رہ جائے
تعجب تو یہ ہے اب باغباں نے دل میں ٹھانی ہے
چمن میں کوئی شاخ آشیاں باقی نہ رہ جائے
شفاؔ ایثار میں پابندیٔ دیر و حرم کیسی
مرے سجدوں میں قید آستاں باقی نہ رہ جائے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.