ستم گر تجھ سے ہم کب شکوۂ بیداد کرتے ہیں
ستم گر تجھ سے ہم کب شکوۂ بیداد کرتے ہیں
ہمیں فریاد کی عادت ہے ہم فریاد کرتے ہیں
متاع زندگانی اور بھی برباد کرتے ہیں
ہم اس صورت سے تسکین دل ناشاد کرتے ہیں
ہواؤ ایک پل کے واسطے للہ رک جاؤ
وہ میری عرض پر دھیمے سے کچھ ارشاد کرتے ہیں
نہ جانے کیوں یہ دنیا چین سے جینے نہیں دیتی
کوئی پوچھے ہم اس پر کون سی بیداد کرتے ہیں
نظر آتا ہے ان میں بیشتر اک نرم و نازک دل
مصائب کے لیے سینے کو جو فولاد کرتے ہیں
خدا کی مصلحت کچھ اس میں ہوگی ورنہ بے حس بت
کسے شاداں بناتے ہیں کسے ناشاد کرتے ہیں
نہیں دیکھا کہیں جو ماجرائے عشق میں دیکھا
کہ اہل درد چپ ہیں چارہ گر فریاد کرتے ہیں
اسیر دائمی گر دل نہ ہو تو اور کیا ہو جب
کہیں وہ مسکرا کر جا تجھے آزاد کرتے ہیں
کیا ہوگا کبھی آدم کو سجدہ کہنے سننے سے
فرشتے اب کہاں پروائے آدم زاد کرتے ہیں
ہمیں اے دوستو چپ چاپ مر جانا بھی آتا ہے
تڑپ کر اک ذرا دل جوئی صیاد کرتے ہیں
بہت سادہ سا ہے اے کیفؔ اپنے غم کا افسانہ
وہ ہم کو بھول بیٹھے ہیں جنہیں ہم یاد کرتے ہیں
- کتاب : Shuur-e-Lashuuri (Pg. 71)
- Author : Sarsvati Saran kaif
- مطبع : Monthly Shan-e-Hind (1983)
- اشاعت : 1983
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.