سیاہ نامۂ اعمال اک بہانہ تھا
سیاہ نامۂ اعمال اک بہانہ تھا
کسی طریقے سے مقصد مجھے جلانا تھا
سنا رہا تھا ہر اک نخل داستاں کوئی
ہر اک مکان کے لب پر کوئی فسانہ تھا
لباس میں وہ حسیں اور پرکشش ٹھہرے
شریر نظروں سے جن کو بدن چھپانا تھا
جگا دیا تھا اسے بھی اذان کے ڈر نے
مجھے بھی صبح سویرے سفر پہ جانا تھا
بچھا ہوا تھا سمندر نگاہ کے آگے
چمکتی ریت کا منظر بھی کیا سہانا تھا
پہنچ رہا ہوں میں تاخیر سے سر منزل
کہ قافلے کو مجھے ساتھ لے کر آنا تھا
کوئی پناہ میسر ہے آج خاورؔ کو
نہ کل جہاں میں کہیں قیس کا ٹھکانا تھا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.