سیاہ شب میں جو روشن دیا سا لگتا تھا
سیاہ شب میں جو روشن دیا سا لگتا تھا
وہ شب چراغ تھا یا روشنی کا ذرہ تھا
حصار جسم سے باہر نکلتے کیسے ہم
بدن میں درد کا دریا کے بعد دریا تھا
وہاں حیات کے صفحات پر نظر پہنچی
درون خاک جہاں جسم جسم بکھرا تھا
وہ بن کے ذات میں اترا دوائے شہرت کل
میرے خلاف قلم نے جو زہر اگلا تھا
اب اس مکان میں تنہائیوں کا ڈیرا ہے
کبھی ہمارے سلف کا بھی اس سے رشتہ تھا
مجھے خبر ہے کہ تنہا نہ تھا سفر میں تو
مرا خیال ترے ساتھ ساتھ چلتا تھا
ہمارے پاس ہی کھوٹا تھا سکۂ اخلاق
دکان دوست میں ورنہ خلوص سستا تھا
اسدؔ کو پڑھ کے یہ سمجھا ہوں میں بقول فگارؔ
وہ شادؔ آج بھی تنہا ہے کل بھی تنہا تھا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.