سوچ کا ارتقا سمندر ہے
پانیوں کا خدا سمندر ہے
عشق کی ابتدا ہیں یہ آنسو
پیاس کی انتہا سمندر ہے
میرے بارے میں جانتا ہے سب
یہ مرا ہم نوا سمندر ہے
کون اس میں نہ ڈوبنا چاہے
کس قدر دل ربا سمندر ہے
کوئی اس کو کہاں سمجھ پائے
ذات کا سلسلہ سمندر ہے
جب تلک آنکھ سے نہیں بہتا
اشک اک بے بہا سمندر ہے
اس کی آنکھوں سے میں نے دیکھا ہے
نیلگوں اور ہرا سمندر ہے
اس میں جھانکا تو ڈوب سکتے ہو
آنکھ بے انتہا سمندر ہے
دو ہی چیزوں میں راز پنہاں ہیں
میری آنکھیں ہیں یا سمندر ہے
خواب کی بد دعا ہے بیداری
تشنگی کی دعا سمندر ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.