سوچ لیجے کیوں عذاب آیا تھا قوم ہود پر
سوچ لیجے کیوں عذاب آیا تھا قوم ہود پر
اور پھر کچھ غور کیجے لمحۂ موجود پر
سو طرح کی خواہشیں پیشانیوں پر درج ہیں
لگ رہا ہے ساجدوں کا قرض ہے مسجود پر
روز اول سے جہاں میں دو طرح کا ہے یقیں
ایک ابراہیمؔ پر اور دوسرا نمرود پر
سورۂ اخلاص کی تصویر ہے گر ایشور
میرا بھی ایقان ہے پھر آپ کے معبود پر
رات پھر میری خدا سے فجر تک گپ شپ ہوئی
رات پھر ہنستے رہے ہم دونوں ہست و بود پر
شام کو پھر یاد آئی شام کے بازار کی
پھر کیا میں نے تبرا شام کے مردود پر
یاد آ جاتی ہیں اب بھی کوڑا کرکٹ دیکھ کر
بھنبھناتی مکھیاں اک طفل نو مولود پر
ہو سکے تو دہر کا نقشہ اٹھا کر دیکھیے
کس قدر محدود ہیں ہم ارض لا محدود پر
تین چوتھائی صدی سے چل رہے ہیں قافلے
ہجرتی پہنچے نہیں ہیں منزل مقصود پر
صرف اتنا ہی کہوں گا میں سپہ سالار سے
آپ سگریٹ پی رہے ہیں بیٹھ کر بارود پر
باپ ہوں سو ایک ہی مصرف ہے میری زیست کا
خرچ ہونا ہے مجھے اولاد کی بہبود پر
دوستوں کی قدر واصفؔ پوچھیے اس شخص سے
وقت پڑنے پر لیا ہو قرض جس نے سود پر
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.