سوچئے گر اسے ہر نفس موت ہے کچھ مداوا بھی ہو بے حسی کے لئے

سوچئے گر اسے ہر نفس موت ہے کچھ مداوا بھی ہو بے حسی کے لئے
شہزاد انجم برہانی
MORE BYشہزاد انجم برہانی
سوچئے گر اسے ہر نفس موت ہے کچھ مداوا بھی ہو بے حسی کے لئے
سورجوں کی وراثت ملی تھی ہمیں در بدر ہو گئے روشنی کے لیے
کوئی آواز ہے وہ کوئی ساز ہے اس سے ہی رنگ و نکہت کا در باز ہے
جس طرف ہو نظر وہ رہے جلوہ گر کیسے سوچیں گے ہم پھر کسی کے لیے
بد دماغی مری ہے وہی جو کہ تھی طرز خود بیں تمہارا وہ ہے جو کہ تھا
چل رہے ہیں انا کے سہارے مگر راستہ ہی نہیں واپسی کے لیے
ہو سلامت مرا عشق جوش جنوں حسن کے راز خود منکشف ہو گئے
اتنی مشکل نہیں رہ گزار فنا بے خودی چاہئے آگاہی کے لیے
اس زمانے سے کوئی توقع نہ رکھ کس میں ہمت ہے خنجر پہ رکھ دے زباں
عدل گاہوں میں انصاف بکنے لگا سچ بھی کہنا ہے جرم آدمی کے لیے
تم سے اک گھونٹ کی پیاس کیا بجھ سکی جب کہ وابستگی تو سمندر سے تھی
ہم نے دریاؤں تک کا سفر طے کیا اپنے بے معنی سی تشنگی کے لیے
آدمی کی ہوس کا ٹھکانا نہیں لیکن انجمؔ خدا سے یہی مانگنا
اک وفادار بیوی ہو بچے ہوں گھر اور کیا چاہئے زندگی کے لیے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.