سوچوں کی پالکی میں بٹھا کر سطور کو
سوچوں کی پالکی میں بٹھا کر سطور کو
کاغذ پہ کھینچ لایا ہوں جنت کی حور کو
سر پر چڑھا کے رکھتا ہوں مستی کے جام سے
اک سانولے بدن کے گلابی سرور کو
اک چیخ ماجرے کی حقیقت بتا گئی
غوطہ لگا کے آنا تھا کیچڑ میں نور کو
ملتی ہیں صبح و شام تشدد کی روٹیاں
غربت کی تنگ جیل میں بھوکے غرور کو
ایسے غزل کے چہرے پہ رونق نہ آئے گی
لفظوں کے ریگ مال سے گھسیے شعور کو
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.