سوچتا ہے کس لئے تو میرے یار دے مجھے
سوچتا ہے کس لئے تو میرے یار دے مجھے
تھک چکا ہوں نفرتوں سے تھوڑا پیار دے مجھے
کون ہوں مجھے تو اپنا نام بھی پتا نہیں
کوئی میرا نام لے کے پھر پکار دے مجھے
ان خرد کی حیلہ سازیوں سے تو امان دے
دفتر جنوں میں کوئی کاروبار دے مجھے
آج اپنے ہی مقابلے پہ ڈٹ گیا ہوں میں
تیغ کوئی بھیج کوئی راہ وار دے مجھے
اس انا کی جنگ میں تو فتح یاب کر مجھے
یہ شرف بھی آج میرے شہسوار دے مجھے
کچھ خبر تو دے مرے مسافروں کی اے صبا
کچھ نشان کوچہ ہائے بے دیار دے مجھے
ٹوٹ کر بکھرتا جا رہا ہوں اس طرح سے میں
کاش کوئی ہاتھ بڑھ کے پھر سنوار دے مجھے
شاہدؔ نوائے عصر کے سخن کی قدر کر
لہجۂ سکوت حرف اعتبار دے مجھے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.