سوز دروں کو آنکھ سے باہر نکال کر
سوز دروں کو آنکھ سے باہر نکال کر
ہر شاخ رکھ رہی ہے گل تر نکال کر
لائے حسین آخری لشکر نکال کر
خیمے سے تشنہ لب علی اصغر نکال کر
تھوڑے ہی دن ہے شاخ شجر پر یہ نغمگی
اڑ جائیں گے یہ لوگ نئے پر نکال کر
اہل نظر کے سامنے رکھتا ہوں دیکھ لیں
لایا ہوں مشت خاک سے گوہر نکال کر
یوں بھی ہو مجھ کو چشم فنا ڈھونڈھتی پھرے
رکھ دوں میں روح جسم سے باہر نکال کر
اس داستاں میں اور تو کچھ بھی نیا نہیں
اس کے بچھڑتے وقت کا منظر نکال کر
کرتا ہوں سجدہ آپ میں اپنے جمال کو
پتھر سے اک خیال کا پیکر نکال کر
اب شاعری میں اور کسی کو بھی دیں جگہ
مجذوب و مست و فقر و قلندر نکال کر
شہروں کی بود و باش نے وحشی کیا اسے
پھرتا ہے قیس ہاتھ میں خنجر نکال کر
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.