صبح ہوتی ہے تو پھر شام سے جی ڈرتا ہے
صبح ہوتی ہے تو پھر شام سے جی ڈرتا ہے
اف یہ آغاز کہ انجام سے جی ڈرتا ہے
نہ علامت ہے نہ تشخیص نہ چارہ جس کا
جانے کس رنجش بے نام سے جی ڈرتا ہے
جرأت شوق کو کچھ ایسے ڈسا ہے غم نے
آج مے خانے کے ہر جام سے جی ڈرتا ہے
ڈھل گیا خوف خدا حسن بتاں میں شاید
ورنہ کیوں صورت اصنام سے جی ڈرتا ہے
زلف بردوش یہ چہرے مجھے معذور رکھیں
دھوپ اور چھاؤں کے اس دام سے جی ڈرتا ہے
مرتکب جرم محبت کے ہوئے کچھ ایسے
اب نہ الزام نہ دشنام سے جی ڈرتا ہے
کوئی لکھے نہ پکارے مجھے راہیؔ کہہ کر
دوستو اب مرا اس نام سے جی ڈرتا ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.