صبح خود بتائے گی تیرگی کہاں جائے
صبح خود بتائے گی تیرگی کہاں جائے
یہ چراغ کی جھوٹی روشنی کہاں جائے
جو نشیب آئے گا راستہ دکھائے گا
موڑ خود بتائے گا آدمی کہاں جائے
بڑھ کے دو قدم تو ہی اس کی پیٹھ ہلکی کر
یہ تھکا مسافر اے رہزنی کہاں جائے
ہاو ہو کی دنیا میں ماوتو کی دنیا میں
رنگ و بو کی دنیا میں سادگی کہاں جائے
بے تعلقی مسلک ہو چکا ہے دنیا کا
دوستی کہاں جائے دشمنی کہاں جائے
اب تو دھوپ آ پہنچی جھاڑیوں کے اندر بھی
اب پناہ لینے کو تیرگی کہاں جائے
کارواں نے چولہوں میں جھونک دی گھنی شاخیں
اب کہیں نہیں سایہ خستگی کہاں جائے
زخم دل تو کیا دو گے داغ سجدہ ہی دے دو
اب تمہاری چوکھٹ سے مظہریؔ کہاں جائے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.