سخن آثار موسم کا کھلا منظر بنانا ہے
سخن آثار موسم کا کھلا منظر بنانا ہے
مجھے صحرا کنارے پھول سا منظر بنانا ہے
سفیر صبح آئندہ ہوں ساری رات جاگوں گا
پرندوں کی طرح اک دل کشا منظر بنانا ہے
لہو موسم میں گھولوں گا ہنر پیکر تراشی کا
کہ پتھر میں چھپی تصویر کا منظر بنانا ہے
مجھے باب اثر بھی کھولنا ہے آسمانوں میں
زمینوں کے دعا گھر میں دعا منظر بنانا ہے
یہی خواہش ہے میرے سبز پوشوں کے قبیلے کی
مجھے پھر اس زمیں کو کربلا منظر بنانا ہے
مرے ورثے میں تو صحرا ہی لکھا ہے مگر مجھ کو
مدینے کی کھجوروں سے سجا منظر بنانا ہے
یقیناً پھر طواف ذات کا منظر بناؤں گا
مگر پہلے مجھے سجدوں بھرا منظر بنانا ہے
کوئی دیکھے تو اس لا منظری کی دھند سے آگے
کوئی سوچے تو اس کے بعد کیا منظر بنانا ہے
فصیل قصر کہنہ کے مقابل دھوپ کا منظر
سنہری دھوپ کا مجھ کو نیا منظر بنانا ہے
نیا رنگ سخن ایجاد کرنا ہے مجھے شوکتؔ
غزل کے شہر میں اک خوش نما منظر بنانا ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.