سکھوں کی آس ہے کب سے مگر نہیں آتے
سکھوں کی آس ہے کب سے مگر نہیں آتے
میں وہ درخت ہوں جس پر ثمر نہیں آتے
نہ جانے کون سی کشتی نگل گیا دریا
کہ اس کے بعد سے اس میں بھنور نہیں آتے
یہ کیسے برف کے حجرے میں بس گیا ہوں میں
کسی کی دھوپ کے ٹکڑے ادھر نہیں آتے
ترے خیال کی کیسی ہے رہ گزر جس میں
پہاڑ آتے ہیں لیکن شجر نہیں آتے
کہاں ہیں کون سی دنیا میں گم ہیں وہ بچے
کہ جن کو یاد کبھی اپنے گھر نہیں آتے
یہ کیسے دیر و حرم ہیں کہ جن کی چھت پر اب
محبتوں کے پرندے نظر نہیں آتے
تجھی کو کاٹ کے بے شکل کر گئے ساحلؔ
وگرنہ درد کے دھارے کدھر نہیں آتے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.