سکون ذات وقف انتشار کر لیا گیا
سکون ذات وقف انتشار کر لیا گیا
غضب ہوا کہ دل کا اعتبار کر لیا گیا
قدم قدم ملے جو آبلے رہ حیات میں
تو آنسوؤں کو مثل آبشار کر لیا گیا
امید صبح و شام غم کے درمیاں بسر جو کی
تو ساعتوں کو درد میں شمار کر لیا گیا
ملا فریب و مکر سے بھی کب وہ حیلہ جو مگر
لباس سادگی کا داغدار کر لیا گیا
نکیر نے مدد بڑی حساب رکھ کے کی مری
گنہ تمام عمر بے شمار کر لیا گیا
زبان و جسم و جان و دل گواہ سب جو بن گئے
تو جرم ان سے ہو کے درکنار کر لیا گیا
گواہ عدلیہ ثبوت حاشیوں پہ آ گئے
حکایتوں پہ ایسے اعتبار کر لیا گیا
زبان حال منتخب ہوئی بیان درد کو
وجود آپ اپنا تار تار کر لیا گیا
گراں زمین کشت غم جگر کو نقد کی ادا
مسرتوں کا وہم تھا ادھار کر لیا گیا
جو ایک جام فرحتؔ حیات کی امید تھا
ستم یہ ہے کہ وہ بھی کل پکار کر لیا گیا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.