سکوں ملتا نہیں جب بھی تو ماں کی یاد آتی ہے
سکوں ملتا نہیں جب بھی تو ماں کی یاد آتی ہے
کہ جیسے بارشوں کی رت میں چھتری یاد آتی ہے
کہیں اس شہر کی آب و ہوا میں دم نہ گھٹ جائے
کہ مجھ کو گاؤں کی سوندھی سی مٹی یاد آتی ہے
دکھاؤں عشق کی پاکیزگی کیسے تمہیں جاناں
خدا کے ذکر پر اکثر تمہاری یاد آتی ہے
سبب مت پوچھنا مجھ سے تم اس کو یاد کرنے کا
مرض کے حد سے بڑھنے پر خدا کی یاد آتی ہے
وہ لڑکی چھوڑ آیا تھا جسے میں بد گمانی میں
اکیلے میں وہی لڑکی سسکتی یاد آتی ہے
اسی امید پر اب تک غزل کہتا رہا ہوں میں
کبھی وہ پوچھ لے شاید کہ کس کی یاد آتی ہے
مصیبت مول لینے کی ہے اک ترکیب یہ بھی ہرشؔ
اسے اتنا کہو تیری سہیلی یاد آتی ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.