سکوت شب ہے نہال گماں سنبھالے ہوئے
سکوت شب ہے نہال گماں سنبھالے ہوئے
ورق ورق ہے کوئی داستاں سنبھالے ہوئے
فلک کی گردشیں آواز دے رہی ہیں مجھے
نہ جانے کب سے ہیں تصویر جاں سنبھالے ہوئے
یہ کون مجھ سے نکل کر ابھی فرار ہوا
یہ کون مجھ میں ہے تیر و کماں سنبھالے ہوئے
ترا وجود ہے آساں مگر یہ مشکل ہے
کہ میری ذات ہے سود و زیاں سنبھالے ہوئے
شفق کے پار کہیں جا کے اب بکھرنے دے
کہ ٹوٹتا ہے بدن امتحاں سنبھالے ہوئے
نہ کوئی درد ہے درد نہاں سے ملتے ہوئے
نہ ہے دعا کوئی میرا جہاں سنبھالے ہوئے
نہ کوئی رنگ ہے عکس سفر پہ جمتا ہوا
نہ کوئی خواب ہے چشم گراں سنبھالے ہوئے
بس ایک رنگ ہے رنگ سفر سے ہٹتا ہوا
بس اک کرن ہے کراں تا کراں سنبھالے ہوئے
ہمارے دشت طلب سے صبا خرام گیا
وہ اپنی نوک پلک پر جہاں سنبھالے ہوئے
یہ جان کب سے ہے اس کی نوا کے زخم لئے
یہ سر ہے کب سے کوئی آسماں سنبھالے ہوئے
کہو یہ رمزؔ سے اجملؔ کی بھی غزل سن لے
وہی تو ہے ترا سوز نہاں سنبھالے ہوئے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.