سلگتی دھوپ میں ہر سائبان دے چکا ہوں
سلگتی دھوپ میں ہر سائبان دے چکا ہوں
میں اس زمیں کو کئی آسمان دے چکا ہوں
وہ تیرے عشق کا ہو یا تری جدائی کا
اسی حیات میں سب امتحان دے چکا ہوں
تو دل نشیں ہے وفادار ہے ذہین بھی ہے
مگر میں اور کسی کو زبان دے چکا ہوں
مری زبان پہ تالا لگانے والے سنیں
میں اپنی آنکھوں سے اپنا بیان دے چکا ہوں
وہ آدمی مجھے بے چینیاں پلا رہا ہے
جسے سکھوں کا میں سارا جہان دے چکا ہوں
مرے وجود کو مٹی کی شکل دی جس نے
یہ مٹی میں اسی مٹی کو دان دے چکا ہوں
مجھے بھلائیں گے وہ فیضؔ کس طرح آخر
وہ جن لبوں کو میں اپنے نشان دے چکا ہوں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.