سلگتی دھوپ تھی دشت و جبل تھے بنجر تھے
سلگتی دھوپ تھی دشت و جبل تھے بنجر تھے
جہاں جہاں سے بھی گزرے عجیب منظر تھے
جو ماں کی کوکھ سے نکلے تری تلاش رہی
لحد نصیب ہوئی جب بھی تیرے خوگر تھے
بدل چکی ہے اچانک حرارت ارضی
جوالا پھوٹ رہے ہیں جہاں سمندر تھے
سراب جیسے گزاری ہے زندگی ہم نے
کہ دور ہی سے لبھانے میں ہم ہنر ور تھے
نہ بت تراشے نہ پوجے نہ توڑ ڈالے مگر
کسی بھی شہر میں آئے بہ شکل آزر تھے
ہماری موت سے پہلے ہی کتنے لوگوں نے
ہمارے بارے میں لکھا تھا ہم گداگر تھے
میں جن کے بیچ میں لیٹا تھا بے حس و حرکت
لٹے پٹے تھے مسافر کٹے ہوئے سر تھے
وہ دن کہ ماں کی دعائیں پناہ تھیں ایرجؔ
کنول تھے رات کی رانی تھے ہم گل تر تھے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.