سلگتی ریت پہ خیمہ لگا کے دیکھا ہے
سلگتی ریت پہ خیمہ لگا کے دیکھا ہے
ہمیں نے دشت کو مسکن بنا کے دیکھا ہے
ہمارے شعر تمہیں کس طرح سمجھ آئیں
ہمارا حال کہاں تم نے آ کے دیکھا ہے
کچھ اس طرح سے بتائی ہیں ہجر کی راتیں
کے جیسے موسم گرما بتا کے دیکھا ہے
وہی بتائے گا عمر حیات کتنی ہے
وہ جس نے ریت پہ چہرہ بنا کے دیکھا ہے
انہیں تھا شوق مسیحائی ہم بھی عاشق تھے
سو ہم نے اپنا گلا بھی کٹا کے دیکھا ہے
سنا تھا عشق میں ہے صبر لازم و ملزوم
تو انتظار بھی پلکیں بچھا کے دیکھا ہے
ہماری آنکھیں کہیں گی نہ جانے کب ہم سے
کسی نے آج ہمیں مسکرا کے دیکھا ہے
ہمارے سر پہ تھا الزام ہے وفائی کا
سو اپنے آپ کو اپنا بنا کے دیکھا ہے
تعلقات میں آنے لگی کمی ہانیؔ
تعصبات نے کیا سر اٹھا کے دیکھا ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.