سنا ہے عشق کے ماروں کو بھوک لگتی ہے
سنا ہے عشق کے ماروں کو بھوک لگتی ہے
کہ جیسے اڑتے پرندوں کو بھوک لگتی ہے
رکھو خیال سے زینت کو ڈھانپ کر اپنی
بدن کھلا ہو تو آنکھوں کو بھوک لگتی ہے
یہ سوچ کر ہی نوالے کو رکھ دیا میں نے
شکم بھرا ہو تو ہاتھوں کو بھوک لگتی ہے
یہ کس لیے مرے تیزابیت ہے سینے میں
یہ کس لیے مجھے راتوں کو بھوک لگتی ہے
رقم ہو جتنی کبھی جیب بھر نہیں پاتی
تجوریوں میں اثاثوں کو بھوک لگتی ہے
پھر اہتمام سے عاطرؔ نمک چھڑکتا ہوں
جب اس کی یاد کے زخموں کو بھوک لگتی ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.