سنا تو ہے کہ کبھی بے نیاز غم تھی حیات
سنا تو ہے کہ کبھی بے نیاز غم تھی حیات
دلائی یاد نگاہوں نے تیری کب کی بات
زماں مکاں ہے فقط مد و جزر جوش حیات
بس ایک موج کی ہیں جھلکیاں قرار و ثبات
حیات بن گئی تھی جن میں ایک خواب حیات
ارے دوام و ابد تھے وہی تو کچھ لمحات
حیات دوزخیاں بھی تمام مبہم ہے
عذاب بھی نہ میسر ہوا کہاں کی نجات
تری نگاہ کی صبحیں نگاہ کی شامیں
حریم راز یہ دنیا جہاں نہ دن ہیں نہ رات
بس اک شراب کہن کے کرشمے ہیں ساقی
نئے زمانے نئی مستیاں نئی برسات
کسی پہ ظلم برا ہے مگر یہ کہتا ہوں
کہ آدمی پہ ہو احسان آدمی ہیہات
سکوت راز وہی ہے جو داستاں بن جائے
نگاہ ناز وہی جو نکالے بات میں بات
غم و نشاط محبت کی چھوڑ دے لالچ
ہر اک سے اٹھتے نہیں یہ عذاب یہ برکات
تمام عکس ہے دنیا تمام عکس عدم
کہاں تک آئنہ در آئنہ حیات و ممات
فضا میں مہکی ہوئی چاندنی کہ نغمۂ راز
کہ اتریں سینۂ شاعر میں جس طرح نغمات
بس ایک راز تسلسل بس اک تسلسل راز
کہاں پہنچ کے ہوئی ختم بحث ذات و صفات
چمکتے درد کھلے چہرے مسکراتے اشک
سجائی جائے گی اب طرز نو سے بزم حیات
جسے سب اہل جہاں زندگی سمجھتے ہیں
کبھی کبھی تو ملے ایسی زندگی سے نجات
اگر خدا بھی ملے تو نہ لے کہ او ناداں
ہے تو ہی کعبۂ دیں تو ہی قبلۂ حاجات
تمام خستگی و ماندگی ہے عالم ہجر
تھکے تھکے سے یہ تارے تھکی تھکی سی یہ رات
تری غزل تو نئی روح پھونک دیتی ہے
فراقؔ دیر سے چھوٹی ہوئی ہے نبض حیات
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.