سنی تو اس نے غیروں سے ہوا گو بد گماں ہم سے
سنی تو اس نے غیروں سے ہوا گو بد گماں ہم سے
بہر صورت رہی بہتر ہماری داستاں ہم سے
زباں پر آئے گی کیا پاس ناموس محبت سے
نہیں دہرائی جاتی دل میں اپنی داستاں ہم سے
چنے تھے چار تنکے ایک دن صحن گلستاں میں
رہا تا زندگی برہم مزاج باغباں ہم سے
دہائی ہے غم مجبوریٔ امکاں دہائی ہے
کہ پھرتی ہیں دم رحلت ہماری پتلیاں ہم سے
سبک سر رہ چکے ہیں ہم بھی دنیا میں کبھی لیکن
یہ ذکر اس وقت کا ہے آپ جب تھے سرگراں ہم سے
قفس ہی ہو گیا طول اسیری سے نشیمن جب
نہ چھوٹے آشیاں سے ہم نہ چھوٹا آشیاں ہم سے
زمانہ دوسری کروٹ بدلتا بھی تو کیا ہوتا
بدل جاتی نہ افتاد زمین و آسماں ہم سے
بہار آنے سے پہلے اک پریشاں خواب دیکھا تھا
کہ جیسے فصل گل میں چھٹ رہا ہے آشیاں ہم سے
زمانہ سازیاں قرباں مآل اندیشیاں صدقے
وہ سننے آج بیٹھے ہیں ہماری داستاں ہم سے
مدد اے لذت ذوق اسیری اب یہ حسرت ہے
قفس والے بدل لیتے ہمارا آشیاں ہم سے
تصور میں کھنچا نقشہ ہے ان کے روئے رنگیں کا
بظاہر پردۂ دل میں ہیں افقرؔ وہ نہاں ہم سے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.