سنتا رہا ہے اور سنے گا جہاں مجھے
سنتا رہا ہے اور سنے گا جہاں مجھے
یوں رکھ گیا ہے کوئی سر داستاں مجھے
سقراط کیا مسیح کیا ذکر حسین کیا
ماضی سنا رہا ہے مری داستاں مجھے
بے نور میرے بعد ہوئی بزم کائنات
تم تو بتا رہے تھے بہت رائیگاں مجھے
موجوں سے ایک عمر رہا معرکہ مگر
غرقاب کر گئیں مری گہرائیاں مجھے
کس کو گماں تھا وقت کا ڈھلتے ہی آفتاب
آ کر ڈرائیں گی مری پرچھائیاں مجھے
اسرارؔ ان کے لب تو کھلیں کچھ جواب میں
نا بھی اگر کہیں گے تو وہ ہوگی ہاں مجھے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.