سرمہ مسی کنگھی چوٹی بھولی ہے
سوکھے پتوں پر اک مینا بیٹھی ہے
کہرے کے لرزیدہ ہاتھوں میں اکثر
تلسی اور ادرک کی چائے چھلکتی ہے
ساون نے دھرتی پر پھیلا دیں آنکھیں
لیکن میرا چہرہ اب بھی خالی ہے
پتھر کے کولھوں پر ہاتھ نہ پھیر کمہار
سوکھی مٹی اور بکھرنے لگتی ہے
وہ جو رنگ چمکتا ہے اس ٹہنی پر
ہاتھ آئے تو پھول نہیں تو تتلی ہے
شاور کے نیچے گھلتی جاتی ہے شام
میری آنکھوں پر اک ٹاول لپٹی ہے
تیر رہی ہے آگ کی مچھلی سینے میں
تم سمجھے تھے شاید برف کی برفی ہے
اپنے ہی مرچے پودینے سوکھ گئے
ورنہ دنیا ماش کی دال تو اب بھی ہے
گرد کے لڈو پیڑے گندے بچے کھائیں
رانی بلی دودھ جلیبی کھاتی ہے
اپنا ٹیپ بجا کر کوا سنتا ہے
سب کو اپنی بولی اچھی لگتی ہے
عیب پرانے گھر کا یہ ہی ہے بابا
کوئی آئے نہ آئے گھنٹی بجتی ہے
اس سنسان سی شام میں اونچے ٹیلے پر
زلفیں کھولے وہ لڑکی کیوں بیٹھی ہے
تین سمندر دو صحرا اس کے آگے
ناگن جیسی ایک لکیر چمکتی ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.