سرمئی شام کے خواب اوڑھے ہوئے کوئی آتا رہا کوئی جاتا رہا
سرمئی شام کے خواب اوڑھے ہوئے کوئی آتا رہا کوئی جاتا رہا
چلچلاتی ہوئی دھوپ کے سائے میں ایک بوڑھا شجر مسکراتا رہا
پتھروں کے بدن سے لپٹتی ہوئی کہکشاں رقص کرتی رہی رات بھر
نیم عریاں خیالات کا دیوتا اپسراؤں کو نغمے سناتا رہا
جب کہ ہوش و خرد مضمحل ہو گئے دل اندھیروں کی بستی میں گم ہو گیا
سانولا خواب آنکھوں کی دہلیز پر آرزوؤں کے دیپک جلاتا رہا
برف کی اوڑھنی کوہساروں نے لی ندیوں نے سمندر کے لب چھو لیے
جھیل سے متصل ہنس تنہا کھڑا ہنسنی کے لیے گیت گاتا رہا
اک عجب کشمکش زندگی بھر رہی وہ نہ سمجھا نہ میں اس کو سمجھا سکا
نقش اظہار کا یعنی اقرار کا میں بناتا رہا وہ مٹاتا رہا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.