تابانیٔ رخ لے کر تم سامنے جب آئے
تابانیٔ رخ لے کر تم سامنے جب آئے
محسوس ہوا ایسا ہم چاند سے ٹکرائے
برکھا کا یہ موسم بھی کس درجہ سہانا ہے
آہوں کی ادھر بدلی زلفوں کے ادھر سائے
آگاہ نہ تھے پہلے ہم عشق کی راہوں سے
پھولوں کے اشاروں پر کانٹوں میں چلے آئے
ہونٹوں کے تبسم پر سو بجلیاں رقصاں ہیں
بکھراتے ہیں وہ شعلے دامن کوئی پھیلائے
آلام زمانہ سے بدلا ہوں میں کس حد تک
میں اپنے کو پہچانوں آئینہ کوئی لائے
اے دوست مجھے تجھ سے اک دور کی نسبت ہے
تاریک مری راتیں گیسو ترے کجلائے
یہ گل بھی ہیں داغ دل ہے فرق سلامؔ اتنا
کچھ رہ گئے گلشن میں کچھ دل میں چلے آئے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.