تابش دنداں سے ان کے رشتۂ گوہر کھلا
تابش دنداں سے ان کے رشتۂ گوہر کھلا
آسماں پر جلوۂ رخسار سے اختر کھلا
سامنے بیٹھے تھے وہ خلوت تھی اور کوئی نہ تھا
ایسے عالم میں ہمارے شوق کا دفتر کھلا
منکر اس بت کے جو ہیں پاتے ہیں وہ اچھی سزا
چومتے ہیں جا کے کعبہ میں وہی پتھر کھلا
میں شمیم نکہت گل کا کہاں پاؤں دماغ
سامنے یوں تو نگاہوں کے ہے اک منظر کھلا
جب چلی اوروں پہ کیا بے آب ہو کر رہ گئی
میری گردن پر چلی تب تیغ کا جوہر کھلا
اک طلسم آب و گل ہی تو ہے ساری زندگی
راز یہ کوئی بتائے جیتے جی کس پر کھلا
وحشت اہل جنوں اس درجہ اب معدوم ہے
رات دن رہنے لگا زنداں کا اب تو در کھلا
بن گئی کنجی زمین شعر غالب کیا کہوں
یعنی ماہرؔ آج یہ قفل سکوت آخر کھلا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.