تعلقات تو مفروضے زندگی کے ہیں
تعلقات تو مفروضے زندگی کے ہیں
یہاں نہ کوئی ہے اپنا نہ ہم کسی کے ہیں
نہ عشق ہی کے اثر ہیں نہ دشمنی کے ہیں
کہ سارے زخم مرے دل پہ دوستی کے ہیں
چراغ اگرچہ نمائندے روشنی کے ہیں
مگر یہ ہے کہ یہ آثار تیرگی کے ہیں
تمہاری تیز روی دے گی کیا سوائے غبار
کہ نقش پا بھی نتیجے سبک روی کے ہیں
شکوک کیا ہیں مرے دوست آگہی کا بلوغ
یقین کیا ہے گھروندے کچھ آگہی کے ہیں
جمیلؔ اپنا سخن ان پہ رائیگاں نہ کرو
یہ مولوی کی سنیں گے یہ مولوی کے ہیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.