طاق نسیاں سے پرانا سا دیا لے آئے
طاق نسیاں سے پرانا سا دیا لے آئے
قافلے وقت کے آئے تو اجالے آئے
اک معما ہی رہی پھر بھی حقیقت اس کی
چلتے چلتے قدم فکر میں چھالے آئے
اس کی گلیوں میں ہے کچھ ایسی کشش ایسا جمال
ماہ شب تاب بھی دستار سنبھالے آئے
تجھ کو دیکھا ہی نہیں موج بہاراں نے کبھی
پھر کہاں سے وہ تری طرز ادا لے آئے
خیمۂ جاں کی طنابیں ہیں بہت بوسیدہ
کوئی طوفان نہ اس سمت ہوا لے آئے
نوک نیزہ کے حوالے تو کیا سر ہم نے
کوئے قاتل سے مگر ہاتھ بچا لے آئے
نورؔ وہ دشت مسافت بھی عجب تھا کل رات
جستجو میں مری خوابوں کے رسالے آئے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.